السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کچھ دن پہلے پی ٹی آئی کے ایک کارکن سے بحث و مباحثہ شروع ہو گیا موصوف نے میری ٹوئٹ پر حسب عادت غداری کا فتویٰ لگا دیا
عرض کی جناب میرے والد مرحوم آرمی میں تھے ۔ بہرحال اس سے تو جو بات ہوئی چھوڑیں آج سوچا کہ کچھ والد محترم اور کچھ اپنے بارے میں لکھنا چاہیے
شروع 1971 سے کرتا ہوں والد محترم رسالپور میں رہتے تھے اور دسویں جماعت میں پڑھتے تھے کہ حالات خراب ہو گئے ۔ پاکستان آرمی نے بھرتیاں شروع کیں
والد صاحب نے جذبہ حب الوطنی میں تعلیم کو خیر آباد کیا ۔ انجینئر کور میں بھرتی ہوئے
ابھی معمولی سی ٹرینگ ہوئی تھی کہ مزید حالات خراب ہو گئے ۔ والد صاحب کو بنگال بھیج دیا گیا کیونکہ یہ بھرتیاں بتا کر کی گئی تھیں ۔ کہ اگر جنگ ہوئی تو بنگال بھیجا جا سکتا ہے اور بھرتی کی عمر اور صحت کے علاوہ ایک ہی شرط تھی بھرتیاں جنگ کیلئے تھیں
والد محترم ملک کیلئے اس وقت بھرتی ہوئے جب ملک حالت جنگ میں تھا ۔ لہذا میرا خون غدار نہیں ہو سکتا میں بھی اپنا تن من دھن اپنے ملک پر قربان کرنے کا جذبہ اور حوصلہ رکھتا ہوں
لیکن وطن کیلئے شروعات تو ان باوردی جرنلوں سے ہونی ہے ۔ جو صرف ٹوئٹ پر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے دعویدار ہیں شہہ رگ کٹ گئی ۔ ایسے میں جب ہر کسی کا فرض بنتا ہے صرف متحد ہونے کیلئے تگ ودو کرے
پاکستان آرمی کے ترجمان برنول کا سٹال ٹوئٹر پر لگا کر بیٹھے تھے میں حیران رہ گیا ایک شخص جو پاکستان آرمی کا ترجمان ہے مطلب پاکستان کے سب سے ذمہ دار ادارے کا ترجمان وہ چھوٹے بچے کی طرح ایک نالائق جماعت کی ترجمانی کر رہا ہے اور ایسے وقت میں وزیراعظم کی تقریر کی تعریفیں کر رہا ہے
جب۔ ہندو بنیے نے ہماری شہ رگ کاٹ دی آئین میں ترمیم کر دی اور ہم اقوام متحدہ میں وزیراعظم کی تقریر پر خوش ہو رہے تھے
تقریر کے حوالے سے کچھ سوال ذہن میں اٹھ رہے ہیں آپ کے گوش گزار کرنا بہتر سمجھتا ہوں
نمبر ایک جب وزیراعظم نے تقریر کی قوم کو بتایا جائے اس وقت کس کس ملک کے سربراہان موجود تھے یا خالی کرسیوں کے سامنے ریسرسل کی گئی
نمبر دو اس تقریر اور اس سے پہلے والے سربراہان کی تقریروں میں فرق بتائیں تقریباً وہی کچھ ہر کسی سربراہ نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا ہاں سب کا انداز جدا ہو سکتا ہے
تب تو کسی پاک آرمی کے ترجمان نے ٹوئٹر پر برنول کا سٹال نہیں لگایا اب ایسا کیا ہو گیا کہ پاک آرمی کے ترجمان آپے سے باہر ہو گئے
نمبر تین اس تقریر کا میں کیا کروں جس سے کشمیر کی بہنوں کی عصمتوں کی رکھوالی نا کی جا سکے
نمبر چار اس تقریر کا میں کیا کروں جس سے کشمیر کے بزرگ جوان اور بچے انڈین درندگی سے محفوظ نا ہوں ۔
نمبر پانچ اس تقریر کا میں کیا کروں جس سے ملک کی سٹاک ایکسچینج بہتر نا ہو سکے روپے کی قدر بہتر نا ہو سکے ۔ بے روزگاری کنٹرول نا ہو سکے ۔ غربت ختم نا ہو سکے۔ غریب کھانے سے کوسوں دور ہو جائے
خیر ایسے سیکڑوں سوال اور ہیں جو میرے اور آپ کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں
اب دوسرے الزام کی طرف بڑھتے ہیں جب پی ٹی آئی والوں کے پاس دلیل نا ہو بات کرنے کی تو ایک پلیٹ بریانی کا الزام لگاتے ہیں
کوئی بھی بے وقوف نہیں آج کے زمانے میں کہ چند ہزار روپیوں کی وجہ سے یا کھانے پر ووٹ دے ڈالے گا اور بالخصوص وہ لوگ تو قطعاً نہیں ہو سکتے جو سیاسی شعور رکھتے ہیں اور مخالفین کو دلیل سے جھوٹ بولنے پر روکتے ہیں
مجھے جب کوئی ایسا کہتا ہے تو اس کی عقل پر ترس آتا ہے کہ یہ خود کو سمجھدار سمجھتا ہو گا حالانکہ سرے سے عقل ہے ہی نہیں
میں بائیس سال سے سعودی عرب میں ہوں الحمدلله مناسب کماتا ہوں گھر کے گزر بسر کے علاوہ
پردے سے حسب توفیق اپنے قریبی ضرورت مندوں کا خیال بھی رکھتا ہوں
زندگی میں ایک روپے کی کوئی سرکاری سہولت کسی کی سفارش سے نہیں لی اور اگر لی ہو تو اللّٰہ روز محشر حساب لے گا ان شاءاللہ یہ میرا ماننا ہے
پی ٹی آئی والے نے سنا کہ بیرون ملک مقیم ہوں تو کہتا ہے اگر اتنے محب وطن ہیں تو پاکستان آ کر خدمت کیوں نہیں کرتے
تو عرض کی جناب کوئی انجینر ڈاکٹر ٹیچر تو ہوں نہیں پاکستان آ کر خدمت کروں مزدور ہوں اللّٰہ تعالیٰ کا کرم ہے اچھی خاصی آمدن ہوتی ہے جو ماہانہ پاکستان بھیجتا ہوں زرمبادلہ کی شکل میں
اب وہ پی ٹی آئی کا تھا کہتا ہے ۔ اس سے ملک کا کیا فائدہ وہ تو آپ اپنے گھر بھیجتے ہیں ۔
شاید مناسب نا لگے لیکن اس کو مطمئن کرنے کیلئے کہا کہ کھانا کیوں کھاتے ہو کہنے لگا کیا مطلب
میں نے پھر پوچھا کہ روز کیوں کھانا کھاتے ہو حالانکہ پاخانہ کر کے ضائع ہو جاتا ہے
اس کو سمجھ نہیں آئی پھر اسے سمجھایا جس طرح کھانا کھا کر جسم میں توانائی آتی ہے لیکن وہ ہمارے جسم میں رہتا نہیں ہے
اسی طرح ہم جو زرمبادلہ بھیجتے ہیں اس سے ملک کو توانائی ملتی ہے پیسہ آگے بڑھتا جاتا ہے لیکن ان دیکھی طاقت مہیاء کرتا جاتا ہے
پھر ایک رٹ چور کی لگاتے ہیں ہر چیز بینقاب ہو رہی ہے ارشد ملک وڈیو سکینڈل ہو شیخ رشید کا بیان نواز شریف ضدی ہے اس لیے جیل میں ہے عمران خان کا اپنا بیان کہ میں یوٹرن لیتا ہوں اس لیے وزیراعظم بن سکا اور جو یوٹرن نہیں لیتے جیل میں ہیں حالیہ اعجاز شاہ کا بیان نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم ہوتا اگر اپنے ارد گرد چند لوگوں کی باتوں میں نا آتا ۔ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نواز شریف کرپٹ نہیں ہے ۔ موجودہ کابینہ میں سمیت وزیراعظم نوے فیصد افراد پر الزامات ہیں
سچی بات تو یہ ہے جو نواز شریف سے نفرت کرتے ہیں یا تو پیدائشی مخالف ہیں ۔ وہ ذاتی طور پر مانتے ہیں نواز شریف کے دور حکومت میں بہت زیادہ کام ہوئے ہیں لیکن وہ اگر مگر کے بھنور میں پھنس کر رہ گئے ہیں
دوسرے وہ لوگ ہیں جن کی عمر کم ہے اور انہوں نے مسلم لیگ اور پی پی کی آپس میں پکڑ دھکڑ نہیں دیکھی اور آج کی گرفتاریوں کو وہ نا صرف سنجیدگی سے لیتے ہیں بلکہ اس پاکستان کی تاریخ کی کامیابی سمجھتے اور سراہتے ہیں
نواز شریف سے نفرت کرنے والے تیسرے وہ لوگ ہیں جو مقامی مسلم لیگی قیادت کے خلاف ہیں اگر یہ گروپ مسلم لیگ چھوڑ دے تو دوسرے دن وہ لوگ نا صرف مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کریں بلکہ فخر سے نواز شریف کے فوٹو کے ساتھ اپنا فوٹو لگائیں گے
ایسا ہر جماعت کے ساتھ ہے کوئی جماعت یا شخص سو فیصد عوام کی حمایت نہیں لے سکتا
میں بظاہر مسلم لیگ کا ووٹر ہوں لیکن کبھی دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ فلاں پی پی کو ووٹ دیتا ہے اس لیے اس کرہ ارض پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ہاں انتظار تھا کسی ایسے کا جو ہمیں سندھی بلوچی پنجابی پٹھان اور کشمیری سے پاکستانی بنا سکتا اور پرامید بھی تھا کہ اب عوام میں شعور بیدار ہو رہا ہے اور ہمیں تقسیم کرنے والوں کے مذموم مقاصد سامنے آ رہے ہیں لہذا وہ وقت دور نہیں جب صوبائیت پرستی ختم ہو جائے گی اور ہم مل کر ملت کے نغمے گا رہے ہوں گے۔ ایسے وقت میں پارٹیوں کو لے کر اس قدر شدید نفرت پیدا کر دی گئی ہے اور سبحان اللّٰہ اس نفرت میں جرنل آصف غفور جیسے لوگ ملوث ہیں جو کھلم کھلا اظہار رائے کرتے ہیں تو تعصب کی بو آتی ہے ان سے
اختلاف رائے کا مقصد اصلاح ہوتی ہے اور اگر کوئی راہ راست پر آنے کے بجائے الٹا غداری کے الزام لگانا شروع کر دے قطعاً مناسب نہیں ہے کوشش کریں اپنی اصلاح کریں ادارہ تو ویسے ہی ہر کسی کو جان سے پیارا ہے ۔ صرف چند جرنل اپنی اصلاح کر لیں تو ان کی عزت و احترام میں بھی نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے
اختتام پر صرف یہی کہوں گا ۔ نہ تو کوئی غدار ہوتا ہے اور کبھی کبھی غدار بننے میں ہمارا قصور ہوتا ہے۔ اتفاق رائے اور اختلاف رائے ہر کسی کا حق ہے دنیا کی کوئی فوج آپ کے حق کو چھین نہیں سکتی نا خاموش کرا سکتی ہے ایسے میں اختلاف رائے ضرور رکھیں لیکن ہم سب پاکستانیوں کو شرم و حیا اور اپنی تربیت کا خیال ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے ۔ ہم نے روز محشر اللّٰہ تعالیٰ کو اپنے اعمال نامہ پیش کرنا ہے ناکہ کسی دوسرے کی سفارش کام آئے گی ۔
جہاں بھی ہوں خوش رہیں آباد رہیں
پاکستان زندہ باد پاکستان پائندہ باد
یا رب العالمین کشمیر فلسطین برما ہندوستان اور دنیا میں مظالم کا سامنا کرنے والے تمام مسلمین کی غائبانہ مدد فرماء اور ہم سب کو راہ راست پر چلنے کی سعادت نصیب فرماء
آمین ثم آمین یارب العالمین
No comments:
Post a Comment