تجربہ گاہ
Tuesday, 12 November 2019
شاہد آفریدی خان کے نام
Friday, 18 October 2019
اچھی ٹیم نہیں ملی
نیک یا نااہل حکمران
کچھ دوست بتا رہے ہیں خان مجبور ہے سابق حکومت کا قرض اتارنا ہے
او بھائی نیٹ پر تمام تفصیل دستیاب ہے یوں کنٹینر پر کھڑے ہو کر بڑے بڑے دعوے کرنے سے پہلے سٹڈی کر لی ہوتی
ضرورت کے وقت پٹرول اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے لیکن دس پیسے پٹرول کی قیمت بڑھنے پر تنقید کرنے والوں سے سوال ضرور کریں کیا تب آپ حوس اقتدار کی خاطر قوم کو گمراہ نہیں کرتے رہے
کیا اس وقت کی حکومت سے اگر تھوڑا سا تعاون کرتے اور وہ معمولی قیمتیں بڑھا کر ملکی معیشت کو مزید بہتر نہیں بنا سکتی تھی لیکن اگر ایسا ہوتا تو آپ کے اقتدار میں مزید رکاوٹیں کھڑی ہو جاتیں صرف اپنے فاہدے کیلئے ملک کا نقصان کیا
یہ دلیل بھی نا دیں کہ بائیس سال سے حکومت میں آنے کی کوشش کرنے والا حالات سے ناواقف تھا اس لیے کنٹینر پر کھڑے ہو کر بڑے بڑے دعوے کیے
سچ پوچھیں تو آپ لوگوں کو بے وقوف بنایا
کہاں ہیں دو سو ارب ڈالر جو واپس لانے تھے
کہاں ہیں نواز شریف کی انڈیا میں فیکٹریاں
کہاں ہیں تین سو ارب روپے جو پاکستان لانے تھے
کہاں ہیں روزانہ کے دس ارب روپے جو نواز شریف حکومت کی کرپشن کے اب محفوظ ہاتھوں میں ہیں
جو منصوبے نواز شریف کے تھے انہی کی تختیاں اتار کر اپنی لگائی جا رہیں ہیں حیرت ہے گوادر میں نواز شریف کی تقریر کو کاپی کرکے عمران خان سے کہلوا دیا گیا اور شرم نام کی چیز آپ لوگوں کے نزدیک سے نہیں گزری آپ تو کچھ مختلف کرنے والے تھے
آٹھ ماہ میں کون کون سا ایسا کام کیا جو سابق حکومتوں سے جدا ہے
وہی ستر سال سے حکمرانی کرنے والے خاندان وہی پولیس وہی سکول ہسپتال
ہاں ایک کام ضرور ہوا ہے بارش پہلی مرتبہ نیک حکمرانوں کی وجہ سے بارش ہوئی ہے
باقی نیک حکمرانوں کے ہاتھوں کچھ نیکی کی امید رکھنا بے کار ہے
Thursday, 10 October 2019
ہاں میں غدار نہیں ہوں
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کچھ دن پہلے پی ٹی آئی کے ایک کارکن سے بحث و مباحثہ شروع ہو گیا موصوف نے میری ٹوئٹ پر حسب عادت غداری کا فتویٰ لگا دیا
عرض کی جناب میرے والد مرحوم آرمی میں تھے ۔ بہرحال اس سے تو جو بات ہوئی چھوڑیں آج سوچا کہ کچھ والد محترم اور کچھ اپنے بارے میں لکھنا چاہیے
شروع 1971 سے کرتا ہوں والد محترم رسالپور میں رہتے تھے اور دسویں جماعت میں پڑھتے تھے کہ حالات خراب ہو گئے ۔ پاکستان آرمی نے بھرتیاں شروع کیں
والد صاحب نے جذبہ حب الوطنی میں تعلیم کو خیر آباد کیا ۔ انجینئر کور میں بھرتی ہوئے
ابھی معمولی سی ٹرینگ ہوئی تھی کہ مزید حالات خراب ہو گئے ۔ والد صاحب کو بنگال بھیج دیا گیا کیونکہ یہ بھرتیاں بتا کر کی گئی تھیں ۔ کہ اگر جنگ ہوئی تو بنگال بھیجا جا سکتا ہے اور بھرتی کی عمر اور صحت کے علاوہ ایک ہی شرط تھی بھرتیاں جنگ کیلئے تھیں
والد محترم ملک کیلئے اس وقت بھرتی ہوئے جب ملک حالت جنگ میں تھا ۔ لہذا میرا خون غدار نہیں ہو سکتا میں بھی اپنا تن من دھن اپنے ملک پر قربان کرنے کا جذبہ اور حوصلہ رکھتا ہوں
لیکن وطن کیلئے شروعات تو ان باوردی جرنلوں سے ہونی ہے ۔ جو صرف ٹوئٹ پر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے دعویدار ہیں شہہ رگ کٹ گئی ۔ ایسے میں جب ہر کسی کا فرض بنتا ہے صرف متحد ہونے کیلئے تگ ودو کرے
پاکستان آرمی کے ترجمان برنول کا سٹال ٹوئٹر پر لگا کر بیٹھے تھے میں حیران رہ گیا ایک شخص جو پاکستان آرمی کا ترجمان ہے مطلب پاکستان کے سب سے ذمہ دار ادارے کا ترجمان وہ چھوٹے بچے کی طرح ایک نالائق جماعت کی ترجمانی کر رہا ہے اور ایسے وقت میں وزیراعظم کی تقریر کی تعریفیں کر رہا ہے
جب۔ ہندو بنیے نے ہماری شہ رگ کاٹ دی آئین میں ترمیم کر دی اور ہم اقوام متحدہ میں وزیراعظم کی تقریر پر خوش ہو رہے تھے
تقریر کے حوالے سے کچھ سوال ذہن میں اٹھ رہے ہیں آپ کے گوش گزار کرنا بہتر سمجھتا ہوں
نمبر ایک جب وزیراعظم نے تقریر کی قوم کو بتایا جائے اس وقت کس کس ملک کے سربراہان موجود تھے یا خالی کرسیوں کے سامنے ریسرسل کی گئی
نمبر دو اس تقریر اور اس سے پہلے والے سربراہان کی تقریروں میں فرق بتائیں تقریباً وہی کچھ ہر کسی سربراہ نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا ہاں سب کا انداز جدا ہو سکتا ہے
تب تو کسی پاک آرمی کے ترجمان نے ٹوئٹر پر برنول کا سٹال نہیں لگایا اب ایسا کیا ہو گیا کہ پاک آرمی کے ترجمان آپے سے باہر ہو گئے
نمبر تین اس تقریر کا میں کیا کروں جس سے کشمیر کی بہنوں کی عصمتوں کی رکھوالی نا کی جا سکے
نمبر چار اس تقریر کا میں کیا کروں جس سے کشمیر کے بزرگ جوان اور بچے انڈین درندگی سے محفوظ نا ہوں ۔
نمبر پانچ اس تقریر کا میں کیا کروں جس سے ملک کی سٹاک ایکسچینج بہتر نا ہو سکے روپے کی قدر بہتر نا ہو سکے ۔ بے روزگاری کنٹرول نا ہو سکے ۔ غربت ختم نا ہو سکے۔ غریب کھانے سے کوسوں دور ہو جائے
خیر ایسے سیکڑوں سوال اور ہیں جو میرے اور آپ کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں
اب دوسرے الزام کی طرف بڑھتے ہیں جب پی ٹی آئی والوں کے پاس دلیل نا ہو بات کرنے کی تو ایک پلیٹ بریانی کا الزام لگاتے ہیں
کوئی بھی بے وقوف نہیں آج کے زمانے میں کہ چند ہزار روپیوں کی وجہ سے یا کھانے پر ووٹ دے ڈالے گا اور بالخصوص وہ لوگ تو قطعاً نہیں ہو سکتے جو سیاسی شعور رکھتے ہیں اور مخالفین کو دلیل سے جھوٹ بولنے پر روکتے ہیں
مجھے جب کوئی ایسا کہتا ہے تو اس کی عقل پر ترس آتا ہے کہ یہ خود کو سمجھدار سمجھتا ہو گا حالانکہ سرے سے عقل ہے ہی نہیں
میں بائیس سال سے سعودی عرب میں ہوں الحمدلله مناسب کماتا ہوں گھر کے گزر بسر کے علاوہ
پردے سے حسب توفیق اپنے قریبی ضرورت مندوں کا خیال بھی رکھتا ہوں
زندگی میں ایک روپے کی کوئی سرکاری سہولت کسی کی سفارش سے نہیں لی اور اگر لی ہو تو اللّٰہ روز محشر حساب لے گا ان شاءاللہ یہ میرا ماننا ہے
پی ٹی آئی والے نے سنا کہ بیرون ملک مقیم ہوں تو کہتا ہے اگر اتنے محب وطن ہیں تو پاکستان آ کر خدمت کیوں نہیں کرتے
تو عرض کی جناب کوئی انجینر ڈاکٹر ٹیچر تو ہوں نہیں پاکستان آ کر خدمت کروں مزدور ہوں اللّٰہ تعالیٰ کا کرم ہے اچھی خاصی آمدن ہوتی ہے جو ماہانہ پاکستان بھیجتا ہوں زرمبادلہ کی شکل میں
اب وہ پی ٹی آئی کا تھا کہتا ہے ۔ اس سے ملک کا کیا فائدہ وہ تو آپ اپنے گھر بھیجتے ہیں ۔
شاید مناسب نا لگے لیکن اس کو مطمئن کرنے کیلئے کہا کہ کھانا کیوں کھاتے ہو کہنے لگا کیا مطلب
میں نے پھر پوچھا کہ روز کیوں کھانا کھاتے ہو حالانکہ پاخانہ کر کے ضائع ہو جاتا ہے
اس کو سمجھ نہیں آئی پھر اسے سمجھایا جس طرح کھانا کھا کر جسم میں توانائی آتی ہے لیکن وہ ہمارے جسم میں رہتا نہیں ہے
اسی طرح ہم جو زرمبادلہ بھیجتے ہیں اس سے ملک کو توانائی ملتی ہے پیسہ آگے بڑھتا جاتا ہے لیکن ان دیکھی طاقت مہیاء کرتا جاتا ہے
پھر ایک رٹ چور کی لگاتے ہیں ہر چیز بینقاب ہو رہی ہے ارشد ملک وڈیو سکینڈل ہو شیخ رشید کا بیان نواز شریف ضدی ہے اس لیے جیل میں ہے عمران خان کا اپنا بیان کہ میں یوٹرن لیتا ہوں اس لیے وزیراعظم بن سکا اور جو یوٹرن نہیں لیتے جیل میں ہیں حالیہ اعجاز شاہ کا بیان نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم ہوتا اگر اپنے ارد گرد چند لوگوں کی باتوں میں نا آتا ۔ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نواز شریف کرپٹ نہیں ہے ۔ موجودہ کابینہ میں سمیت وزیراعظم نوے فیصد افراد پر الزامات ہیں
سچی بات تو یہ ہے جو نواز شریف سے نفرت کرتے ہیں یا تو پیدائشی مخالف ہیں ۔ وہ ذاتی طور پر مانتے ہیں نواز شریف کے دور حکومت میں بہت زیادہ کام ہوئے ہیں لیکن وہ اگر مگر کے بھنور میں پھنس کر رہ گئے ہیں
دوسرے وہ لوگ ہیں جن کی عمر کم ہے اور انہوں نے مسلم لیگ اور پی پی کی آپس میں پکڑ دھکڑ نہیں دیکھی اور آج کی گرفتاریوں کو وہ نا صرف سنجیدگی سے لیتے ہیں بلکہ اس پاکستان کی تاریخ کی کامیابی سمجھتے اور سراہتے ہیں
نواز شریف سے نفرت کرنے والے تیسرے وہ لوگ ہیں جو مقامی مسلم لیگی قیادت کے خلاف ہیں اگر یہ گروپ مسلم لیگ چھوڑ دے تو دوسرے دن وہ لوگ نا صرف مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کریں بلکہ فخر سے نواز شریف کے فوٹو کے ساتھ اپنا فوٹو لگائیں گے
ایسا ہر جماعت کے ساتھ ہے کوئی جماعت یا شخص سو فیصد عوام کی حمایت نہیں لے سکتا
میں بظاہر مسلم لیگ کا ووٹر ہوں لیکن کبھی دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ فلاں پی پی کو ووٹ دیتا ہے اس لیے اس کرہ ارض پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ہاں انتظار تھا کسی ایسے کا جو ہمیں سندھی بلوچی پنجابی پٹھان اور کشمیری سے پاکستانی بنا سکتا اور پرامید بھی تھا کہ اب عوام میں شعور بیدار ہو رہا ہے اور ہمیں تقسیم کرنے والوں کے مذموم مقاصد سامنے آ رہے ہیں لہذا وہ وقت دور نہیں جب صوبائیت پرستی ختم ہو جائے گی اور ہم مل کر ملت کے نغمے گا رہے ہوں گے۔ ایسے وقت میں پارٹیوں کو لے کر اس قدر شدید نفرت پیدا کر دی گئی ہے اور سبحان اللّٰہ اس نفرت میں جرنل آصف غفور جیسے لوگ ملوث ہیں جو کھلم کھلا اظہار رائے کرتے ہیں تو تعصب کی بو آتی ہے ان سے
اختلاف رائے کا مقصد اصلاح ہوتی ہے اور اگر کوئی راہ راست پر آنے کے بجائے الٹا غداری کے الزام لگانا شروع کر دے قطعاً مناسب نہیں ہے کوشش کریں اپنی اصلاح کریں ادارہ تو ویسے ہی ہر کسی کو جان سے پیارا ہے ۔ صرف چند جرنل اپنی اصلاح کر لیں تو ان کی عزت و احترام میں بھی نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے
اختتام پر صرف یہی کہوں گا ۔ نہ تو کوئی غدار ہوتا ہے اور کبھی کبھی غدار بننے میں ہمارا قصور ہوتا ہے۔ اتفاق رائے اور اختلاف رائے ہر کسی کا حق ہے دنیا کی کوئی فوج آپ کے حق کو چھین نہیں سکتی نا خاموش کرا سکتی ہے ایسے میں اختلاف رائے ضرور رکھیں لیکن ہم سب پاکستانیوں کو شرم و حیا اور اپنی تربیت کا خیال ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے ۔ ہم نے روز محشر اللّٰہ تعالیٰ کو اپنے اعمال نامہ پیش کرنا ہے ناکہ کسی دوسرے کی سفارش کام آئے گی ۔
جہاں بھی ہوں خوش رہیں آباد رہیں
پاکستان زندہ باد پاکستان پائندہ باد
یا رب العالمین کشمیر فلسطین برما ہندوستان اور دنیا میں مظالم کا سامنا کرنے والے تمام مسلمین کی غائبانہ مدد فرماء اور ہم سب کو راہ راست پر چلنے کی سعادت نصیب فرماء
آمین ثم آمین یارب العالمین
Tuesday, 20 August 2019
جمہوریت
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
میں اکثر لکھتا رہتا ہوں آج پھر سوچا تفصیل سے لکھوں۔ اکثر دوست بحث کرتے ہیں تیس سال سے لوٹ کر کھا گئے یا چند فوجیوں کی غلط کاریوں کی نشاہدہی کو غداری سے تعبیر کیا جاتا ہے
ان سے مؤدبانہ گزارش ہے اس تحریر کو مکمل پڑھنا ہے
جمہوریت کا جو مطلب پاکستان میں قائم نظام سے لیتے ہیں سو فیصد غلط ہیں پاکستان بہتر سالوں سے آرمی کے ماتحت چل رہا ہے جمہوری نظام کبھی قائم ہوا ہی نہیں ہے اسی لیے پارٹیوں میں بھی جمہوریت نہیں ہے۔ لیکن ہمارا آج کا موضوع ملک میں چلنے والے نظام کو لے کر ہے سو اسی پر فوکس کروں گا
مارشل لاء آئے نیم مارشل لاء آئے مکمل آزاد حکومت کبھی آئی ہی نہیں۔ ووٹ کو عزت ملی ہی نہیں ووٹ کو جس دن سے اسٹیبلشمنٹ نے عزت دینے کا سوچ لیا یقین کریں وہی دن پاکستان کی ترقی کا حقیقی دن ہو گا ۔ دنیا کے بہترین جمہوری نظام میں شامل ہونے کیلئے اور اس کے ثمرات سے فیضیاب ہونے کیلئے صرف تین الیکشن کی ضرورت ہے حکومت کا دورانیہ چار سال کر سکتے ہیں ثمرات کیسے ملیں گے جی تو عرض ہے جب کسی امیدوار کو علم ہے میں نے صرف کارکردگی سے منتخب ہونا ہے تو وہ کارکردگی بہتر کرے گا عوام بھی پارٹی نہیں دیکھے گی قابلیت دیکھے گی پہلے الیکشن کے بعد دوسرے الیکشن میں آپ کو مختلف امیدوار دستیاب ہوں گے تیسری مرتبہ اس سے بھی مختلف اور بہتر یہی وہ رستہ ہے جو پاکستان کی بقاء اور خوشحالی کا ہے
موجودہ نظام کیا ہے آج نواز شریف سرنڈر کر لے اسٹیبلشمنٹ راضی ہو جائے ایک ماہ میں تمام کیس ری اوپن ہو کر وہ مکمل بیگناہ ثابت ہو جائے گا نااہلی بھی ختم ہو جائے گی عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے بگڑ جائے جن کیسوں سے بری ہو چکا یا عدالتوں میں زیر التوا ہیں کھل جائیں گے اور وہ فیملی سمیت سلاخوں کے پیچھے ہو گا
اس لیے یہ مت سمجھیں ملک کا ستیاناس سیاستدانوں نے کیا ملک کی تباہی کی وجہ اسٹیبلشمنٹ ہے سیاستدان تو برا ہو گا عوام کو ووٹ کا اختیار ہو گاوہ اسے ووٹ سے ختم کر دیں گے اسٹیبلشمنٹ کبھی ختم نہیں کرتی ورنہ ستر سالوں سے وہی خاندان آج بھی برسر اقتدار نا ہوتے
ہاں اس بات کا اضافہ کر دوں تمام سیاستدانوں نے سرمایہ بیرون ممالک شفٹ کیا اس کی بنیادی وجہ بھی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے
کیونکہ اسٹیبلشمنٹ مخالف ہوتی ہے تو سب ضبط ہو جاتا ہے۔یا ضبط کرنے کی دھمکیوں سے بلیک میل کیا جاتا ہے لیکن اگر نظام جمہوری ہو گا اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نہیں ہو گی ہر کوئی چاہے گا اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرے لوگوں کی زندگی آسان بنائے انہیں روزگار مہیاء کرے اور اس سے سیاسی فائدہ بھی حاصل کرے۔
ضیاء الحق کا جبر پی پی کو ختم نا کر سکا۔نواز شریف نے پی پی کو پانچ سال پورے
کرنے دئیے نتیجہ آپ کے سامنے ہے پی پی کو امیدوار نہیں ملتا امیدوار ملے تو ووٹر نہیں ہے ۔ لیکن یاد رکھئے پی پی جب بھی اقتدار میں آئے گی اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے آئے گی پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں جمہوری نظام غلط ہے سوال یہ ہے پاکستان میں جمہوری نظام ہے کدھر
اللّٰہ کرے جمہوری نظام آئے پھر دیکھیے گا ملک ترقی کیسے کرتا ہے ۔ جب ووٹ سے حکومت منتخب ہو گی تبھی عوام کے جذبات کی قدر ممکن ہے
اس لیے پارٹی بازی سے بالاتر ہو کر ووٹ کو عزت دو کے نظریے پر قوم کو متفق ہونا ہو گا
کسی عمران خان نواز شریف کیلئے نہیں اپنے حقوق کیلئے
پلیز سب پڑھیں اور فیڈ بیک ضرور دیں
Tuesday, 16 July 2019
برساتی مینڈک
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
معزز قارئین مون سون کی بارشیں برسنا شروع ہو گئی ہیں تو پاکستان کے شہروں کی کچھ وڈیو دیکھیں تو سوچا کچھ لکھنا چاہیے ۔
کیونکہ موجودہ حکمران کچھ عرصہ پہلے ان مسائل پر خوب تنقید کرتے تھے دلچسپ بات آج بھی وہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ۔
جب بھی کسی ملک میں زیادہ بارشیں آتیں ہیں تو پہلے جھٹکے میں تمام نظام متاثر ہوتا ہے اس کے بعد جو حرکت کچھ عرصہ پہلے سے شروع ہو چکی ہوتی ہے اس میں تیزی آتی ہے نتیجہ حالات کنٹرول میں آ جاتے ہیں ۔ شہباز شریف مون سون سے چند ماہ پہلے سے تیاری شروع کر دیتا تھا ۔ جس دن بارش ہوئی ٹیم کے ساتھ مل کر حالات کنٹرول میں کر لیتا تھا اس مرتبہ کوئی تیاری نہیں تھی لہذا ہر گلی کوچے میں سیلاب آیا ہوا ہے۔ بزدار اور گل فلم شوٹنگ کر رہے ہیں اور الزام لگا رہے ہیں کہ سابق حکومت نے کوئی پلاننگ نہیں کی اس لیے ایسا ہو رہا ہے
سابق حکومت کو ختم ہوئے 13 ماہ ہو چکے ہیں آپ بتائیں آپ نے کیا کیا مجھے ان لوگوں کے پراپیگنڈے کا دکھ نہیں وہ تو فریق ہیں مجھے دکھ ہوتا ہے جب عوام باتوں میں آ کر بے جا تنقید اور گالم گلوچ کرتی ہے ۔ کہتے ہیں نکاسی کا مناسب انتظام نہیں کیا ۔ ان کیلئے عرض ہے کہ بڑے بڑے ممالک پرانے شہروں کی نکاسی کا نیا نظام لاتے ہوئے کنگال ہو جاتے ہیں ہمارے اتنے وسائل کہاں ۔ فرض کریں اگر شروع بھی کر دیا جائے تو ہر شہر کا نظام بدل نہیں سکتے ایک شہر سے شروع کرنا ہو گا تو سب کہنے لگیں گے کہ پورے پاکستان کی ویلفیئر کا پیسہ ایک شہر کے نالے بنانے کیلئے لگا دیا ۔ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کسی منصوبے کی تعریف ہم کر دیں ۔ مثال کے طور پر بڑے شہروں میں دودھ گوشت چھوٹے شہروں اور دیہاتوں سے آتا ہے
ایسے میں شہباز شریف نے لاہور شہر میں انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے ذبع خانے بنانے شروع کیے ہونا تو چاہئے تھا اس منصوبے کو پذیرائی ملتی سب تعاون کرتے حوصلہ افزائی کرتے اپنے شہروں میں ایسے سنٹر بنانے کیلئے کہتے ۔الٹا لاہور شہر کو کھوتا خور شہر قرار دے دیا حالانکہ اس طرح کا مکروہ کام سب شہروں میں ہوتا ہے دیہاتوں میں اگر کوئی جانور مر جائے یا مرنے کے قریب ہو فوراً ذبح کر کے قصاب کے حوالے کر دیا جاتا ہے بد قسمتی سے ساری قوم ہی ایسی ہے۔ میٹرو ایک شہر میں بنی تو تنقید ہوئی الحمدلله تین شہروں میں بن گئی اس شہر کا طالبعلم ملازم ضرورت مند مناسب پیسوں میں سفر کرتا ہے لیکن اسٹیشن پر کھڑے ہو کر پوچھیں آدھے تنقید کریں گے لیپ ٹاپ لینے والے تنقید کریں گے ۔ بہر حال چھوڑیں یہ باتیں گیارہ ماہ ہو گئے حکومت کو پچھلی حکومت چور تھی کرپٹ تھی اب ایسا نہیں ہے ۔ اب کسی ایک شہر سے شروع کر دیں راولپنڈی سے لاہور سے پشاور میں تو کھدائی ہوئی ہے میٹرو کی تھوڑی سی اور کر لیں ساتھ میں نکاسی آب کیلئے پائپ لائن منصوبے کی تکمیل بھی کر لیں ۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا صرف باتیں اور باتیں ہونگی
دھرنے کے دنوں میں شاہ محمود قریشی نے ملتان میں جلسہ کیا اور کہا پاکستان بنے 67 سال ہو گئے آج بھی ملتان میں صاف پانی کیلئے کوئی انتظام نہیں ہے ہم آئے تو صاف پانی کے منصوبے لگیں گے تب بے اختیار ہنسی نکل گئی کہ نسل در نسل اقتدار میں رہنے والے دربار کے نام پر چندہ لے کر غریبوں کے پیٹ پر لات مارنے والے کہہ رہے ہیں پہلے حکمرانوں نے کچھ نہیں کیا ۔
چلیں جعلی پیر جعلی وزیراعظم ان ٹرین وزیر اعلیٰ کراے پر مشیروں کی ٹیم آئی ایم ایف ورلڈ بینک کے ایجنٹ برساتی مینڈک مسلط کر کے اسٹبلشمنٹ نے جو ظلم کرنا تھا کر دیا اب آپ اپنی طاقت آزما لیں ۔
اللّٰہ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
پاکستان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
Sunday, 7 July 2019
لیڈر مریم نواز
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم قارئین کرام کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے ۔ آج ابھی میں نے مریم نواز صاحبہ کو منڈی بہاوالدین کیلئے نکلتے ہوئے دیکھا کچھ دن پہلے ایک کانفرنس کی اور کل تو کمال کر دیا ۔ تو میری توجہ ماضی پر پڑی ۔ میاں نواز شریف سیاسی نہیں تھے میاں محمد شریف مرحوم نے بھٹو کا ساتھ نہیں دیا جس کی پاداش میں ان کی فیکٹری کو قومی تحویل میں لے لیا گیا
تب ان کے دوستوں نے مشورہ دیا ۔ آپ پر اللہ کی رحمت ہے کاروبار کرنا ہے تو سیاسی طور پر مضبوط ہونا ضروری ہے ۔
تب ضیاء الحق آتا ہے جو گیارہ سال کیلئے مارشل لاء کی صورت میں برسر اقتدار رہتا ہے ۔ بھٹو کے خلاف ہے لہذا میاں محمد نواز شریف ضیاء الحق ٹیم کا حصہ بن جاتے ہیں صوبائی وزیر خزانہ اور وزیر اعلیٰ رہتے ہیں ۔ مالی طور پر مضبوط ہونے کی وجہ سے ضیاء الحق کے بعد پیپلز پارٹی مخالف اتحاد آئی جے آئی کے سربراہ بنتے ہیں اور جلد ہی مسلم لیگ کے نام سے اپنی پارٹی بناتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے مقابل سب سے قد آور شخصیت اور جماعت کے طور پر ابھرتے ہیں اور عروج کا یہ عالم ہے 2018 کے الیکشن میں بکسے چوری ہونے اور 16 لاکھ ووٹ ریجکٹ ہونے نااہل ہونے جیل میں بیٹی اور داماد سمیت قید ہونے
امیدواروں کو نااہل پارٹی وابستگی تبدیل کرنے جیسے ہتھکنڈوں کے باوجود ایک کروڑ تیس لاکھ سے زائد ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ مسلم لیگ کیا ہے جی مسلم لیگ نواز شریف ہے۔ اب مریم نواز کا ذکر ہو جائے ۔ 1999 میں بہت کم لوگ ہوں گے جو جانتے ہوں نواز شریف کے کتنے بچے ہیں تب نواز شریف کی گرفتاری پر چوری کھانے والے مجنوں گجراتی برادران شیدہ ٹلی چوہدری نثار باقی کافی لوگ وقتی گوشہ نشین ہو گئے
تب بیگم کلثوم نواز مریم نواز نواز شریف کیلئے گھر سے باہر نکلیں چاہے عدالت ہو یا جیل کا سفر طے کیا۔ میڈیا اور عوام میں نکلیں ۔۔ مجھے یاد ہے ایک بہادر بیٹی کا کہنا ہم تو پاکستان آرمی سے بے پناہ محبت کرتے ہیں الفا براوو چارلی ڈرامے کا ذکر بھی کیا کہ ہم وہ بہت شوق سے دیکھتے ہیں ۔ محب وطن ہونے کے باوجود ہمیں کس ناکردہ جرم کی سزا دی جا رہی ہے جبکہ پاکستان نے پہلے سے بہت زیادہ ترقی کر ہے
آج ایک مرتبہ پھر مریم نواز صاحبہ والد کیلئے باہر نکل چکیں ہیں لیکن بالکل مختلف روپ میں ایک مریم نواز وہ تھی جو 1999 میں باہر نکلی تھی لیکن عام دیسی ماحول میں پلی بڑھی معصوم سی لڑکی
لیکن آج جب 2018 میں وہ بات کرتی ہے پاکستان میں کوئی ایک بھی اس کے مد مقابل قد کاٹھ والا عوامی نمائندہ نظر نہیں آتا ۔ آج وہ لیڈر بن چکی ہے پھول جیسی خوبصورت صنفِ نازک کہلانے والی
ایک بلند وبالا پہاڑ کی طرح بے شمار حوصلے اور ہمت والی جس کے منہ سے نکلے چند الفاظ کی جہاں کروڑوں لوگوں کو خوشی ہوتی ہے وہیں لاکھوں لوگ حسد سے مر جاتے ہیں ۔ جی مریم نواز لیڈر بن چکی ہے۔ اگر پاکستان میں باقی دنیا کی طرح الیکشن ہوتے اور عوام کے ووٹ کے ذریعے وزیر اعظم منتخب ہوتے یقین سے کہہ سکتا ہوں آج بھی مریم نواز ایک گھریلو خاتون ہوتیں ۔ بہت کم لوگ ان کے بارے میں جانتے ۔ انہیں تو حالات نے سیاست دان بنا دیا ۔ ہاں آج وہ سیاست دان ہیں ہاں آج وہ ایک تقریر کریں کہیں مہینوں کیلئے اثر چھوٹ جاتا ہے
انہیں سیاست وراثت میں ضرور ملی ہو گی لیکن ہر دن والد کی طرح سیاست میں قد آور ہوتیں جا رہیں ہیں ۔ تو اس کا ذمہ دار کون ہے ۔ یورپ کے جمہوری نظام کی باتیں کرنے والے بتانا پسند کریں گے کہ یورپ میں دیگر اداروں کی حکومتی معاملات میں مداخلت کتنی ہوتی ہے ۔ ہمارے ملک میں ہر کسی کے پاس سوال ہیں جواب کوئی نہیں
کوشش کریں ارد گرد کے ماحول پر نگاہ ڈالیں اور جواب ڈھونڈیں تبھی ممکن ہے ہم ترقی کر سکیں
فی امان اللہ
محب وطن پاکستانی
پاکستان زندہ باد