السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
معزز قارئین مون سون کی بارشیں برسنا شروع ہو گئی ہیں تو پاکستان کے شہروں کی کچھ وڈیو دیکھیں تو سوچا کچھ لکھنا چاہیے ۔
کیونکہ موجودہ حکمران کچھ عرصہ پہلے ان مسائل پر خوب تنقید کرتے تھے دلچسپ بات آج بھی وہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ۔
جب بھی کسی ملک میں زیادہ بارشیں آتیں ہیں تو پہلے جھٹکے میں تمام نظام متاثر ہوتا ہے اس کے بعد جو حرکت کچھ عرصہ پہلے سے شروع ہو چکی ہوتی ہے اس میں تیزی آتی ہے نتیجہ حالات کنٹرول میں آ جاتے ہیں ۔ شہباز شریف مون سون سے چند ماہ پہلے سے تیاری شروع کر دیتا تھا ۔ جس دن بارش ہوئی ٹیم کے ساتھ مل کر حالات کنٹرول میں کر لیتا تھا اس مرتبہ کوئی تیاری نہیں تھی لہذا ہر گلی کوچے میں سیلاب آیا ہوا ہے۔ بزدار اور گل فلم شوٹنگ کر رہے ہیں اور الزام لگا رہے ہیں کہ سابق حکومت نے کوئی پلاننگ نہیں کی اس لیے ایسا ہو رہا ہے
سابق حکومت کو ختم ہوئے 13 ماہ ہو چکے ہیں آپ بتائیں آپ نے کیا کیا مجھے ان لوگوں کے پراپیگنڈے کا دکھ نہیں وہ تو فریق ہیں مجھے دکھ ہوتا ہے جب عوام باتوں میں آ کر بے جا تنقید اور گالم گلوچ کرتی ہے ۔ کہتے ہیں نکاسی کا مناسب انتظام نہیں کیا ۔ ان کیلئے عرض ہے کہ بڑے بڑے ممالک پرانے شہروں کی نکاسی کا نیا نظام لاتے ہوئے کنگال ہو جاتے ہیں ہمارے اتنے وسائل کہاں ۔ فرض کریں اگر شروع بھی کر دیا جائے تو ہر شہر کا نظام بدل نہیں سکتے ایک شہر سے شروع کرنا ہو گا تو سب کہنے لگیں گے کہ پورے پاکستان کی ویلفیئر کا پیسہ ایک شہر کے نالے بنانے کیلئے لگا دیا ۔ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کسی منصوبے کی تعریف ہم کر دیں ۔ مثال کے طور پر بڑے شہروں میں دودھ گوشت چھوٹے شہروں اور دیہاتوں سے آتا ہے
ایسے میں شہباز شریف نے لاہور شہر میں انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے ذبع خانے بنانے شروع کیے ہونا تو چاہئے تھا اس منصوبے کو پذیرائی ملتی سب تعاون کرتے حوصلہ افزائی کرتے اپنے شہروں میں ایسے سنٹر بنانے کیلئے کہتے ۔الٹا لاہور شہر کو کھوتا خور شہر قرار دے دیا حالانکہ اس طرح کا مکروہ کام سب شہروں میں ہوتا ہے دیہاتوں میں اگر کوئی جانور مر جائے یا مرنے کے قریب ہو فوراً ذبح کر کے قصاب کے حوالے کر دیا جاتا ہے بد قسمتی سے ساری قوم ہی ایسی ہے۔ میٹرو ایک شہر میں بنی تو تنقید ہوئی الحمدلله تین شہروں میں بن گئی اس شہر کا طالبعلم ملازم ضرورت مند مناسب پیسوں میں سفر کرتا ہے لیکن اسٹیشن پر کھڑے ہو کر پوچھیں آدھے تنقید کریں گے لیپ ٹاپ لینے والے تنقید کریں گے ۔ بہر حال چھوڑیں یہ باتیں گیارہ ماہ ہو گئے حکومت کو پچھلی حکومت چور تھی کرپٹ تھی اب ایسا نہیں ہے ۔ اب کسی ایک شہر سے شروع کر دیں راولپنڈی سے لاہور سے پشاور میں تو کھدائی ہوئی ہے میٹرو کی تھوڑی سی اور کر لیں ساتھ میں نکاسی آب کیلئے پائپ لائن منصوبے کی تکمیل بھی کر لیں ۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا صرف باتیں اور باتیں ہونگی
دھرنے کے دنوں میں شاہ محمود قریشی نے ملتان میں جلسہ کیا اور کہا پاکستان بنے 67 سال ہو گئے آج بھی ملتان میں صاف پانی کیلئے کوئی انتظام نہیں ہے ہم آئے تو صاف پانی کے منصوبے لگیں گے تب بے اختیار ہنسی نکل گئی کہ نسل در نسل اقتدار میں رہنے والے دربار کے نام پر چندہ لے کر غریبوں کے پیٹ پر لات مارنے والے کہہ رہے ہیں پہلے حکمرانوں نے کچھ نہیں کیا ۔
چلیں جعلی پیر جعلی وزیراعظم ان ٹرین وزیر اعلیٰ کراے پر مشیروں کی ٹیم آئی ایم ایف ورلڈ بینک کے ایجنٹ برساتی مینڈک مسلط کر کے اسٹبلشمنٹ نے جو ظلم کرنا تھا کر دیا اب آپ اپنی طاقت آزما لیں ۔
اللّٰہ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
پاکستان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
No comments:
Post a Comment