Saturday, 6 July 2019

انگلستان اور انگلش دماغ

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
                         السلام علیکم دوستو
         ہندوستان میں انگریز تجارت کرنے کیلئے آیا اور پھر قبضہ کر کے بیٹھ گیا ۔ مختلف خونی تحریکیں چلی تب کہیں جا کر آزادی ملی ۔ لیکن انگریز جاتے جاتے کچھ تحفے دے گئے۔ سب سے پہلے برطانیہ کا کسی ملک پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں حکومت کرنے کا طریقہ کار ملاحظہ فرمائیں۔
        کسی کمزور دماغ اور کمزور دفاعی نظام رکھنے والے کٹھ پُتلی مقامی راجہ کو تخت پر بٹھایا جاتا تھا۔ فوج کے تمام بڑے عہدے انگریزوں نے سنبھال رکھے ہوتے تھے مقامی لوگوں کو فوج میں بھرتی کیا جاتا
        ان سے تمام خدمات لی جاتیں۔ اعلیٰ افسران تمام قواعد و ضوابط طے کرتے جسے مقامی قیادت کے ذریعے عمل میں لایا جاتا۔
        14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آتا ہے کہنے کو انگریز چلا جاتا ہے لیکن ہمیں ورثے میں اپنا ماحول دے کر جاتا ہے ۔  پہلے بھی آفیسر انگلش میں بات کرتے تھے آج بھی انگلش میں بات کرتے ہیں پہلے بھی مقامی آبادیوں سے قربانی کیلئے سپاہی بھرتی تیار کئے جاتے تھے آج بھی ایسا ہی ہے ۔ پہلے بھی انگریز آفیسر طاقتور تھے آج بھی انگلش آفیسر طاقتور ہیں۔ پہلے بھی کٹھ پتلی راجہ کو حکومت سونپی جاتی تھی ۔ آج بھی کٹھ پتلی حکمران ترجیح ہے۔ پہلے بھی اگر کوئی راجہ مضبوط ہونے کی کوشش کرتا ۔ کسی دوسرے کمزور راجہ کو مدد کر کے اور سازشیں کرکے مضبوط ہو رہے راجہ کو رستے سے ہٹا دیا جاتا آج بھی مضبوط سربراہ کے خلاف سازشیں کر کے کٹھ پتلی سربراہ لائے جاتے ہیں ۔ تب بھی سرمایہ کاری آرمی کرتی تھی آج بھی آرمی بہت سارے ادارے چلا رہی ہے
تب بھی کوئی انگریز آفیسر رٹائرڈ ہو کر لندن چلا جاتا آج بھی انگلش آفیسر لندن امریکہ یا پیرس شفٹ ہو جاتے ہیں۔ کچھ نہیں بدلا صرف نام ملا
اسلامی جمہوری پاکستان
لیکن اسلامی ملا نا جمہوری ملا نا پاکستان ملا
بس لارڈ ماؤنٹ بیٹن انگلش نام کے بجائے اسلامی نام  ایوب ضیاء مشرف باجوہ ملے
لیکن عادتیں لارڈ ماؤنٹ بیٹن والی ملیں آج بھی ستر سال سے وہی سازشیں آج بھی
کچھ فرق نہیں پڑا
           فرق پڑنا چاہیے کیونکہ آپ انگلش ضرور بولتے ہیں لیکن ہمارا خون ایک ہے ہم نے قیامت کے دن ایک اللّٰہ کو جوابدہ ہونا ہے ۔ تب آپ جرنل نہیں ہوں گے آرمی چیف نہیں ہوں گے۔ انگلش اور اردو کا فرق نہیں ہو گا صرف عربی ہو گی ۔ سیاستدانوں کو ان کے گناہوں کی سزا ملے گی ۔ لیکن آپ کو بھی اپنے کئے کی سزا ملے گی۔ آپ کی وجہ سے ہوتی ملکی تباہی کا ذمہ دار روز محشر کوئی دوسرا نہیں ہو گا
            آج تو ارشد ملک جس نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا کہہ رہا ہے دل ملامت کرتا ہے نواز شریف کے خلاف کچھ نہیں تھا لیکن پریشر تھا سزا ضرور سنانی ہے لیکن اب روتا ہوں اللّٰہ کے سامنے کیسے پیش ہوں گا ۔ اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے تو سب کو پیش ہونا ہے۔
             ان سب باتوں کے علاوہ آپ کی توجہ سب سے ضروری نکتہ پر مبذول کرا دوں ۔ انگریز سے جان چھڑانے کیلئے قربانیاں دیں تھیں کہیں ایسا نہ ہو انگریزوں کے دماغ (  جو تحفے میں ملے تھے ) کو  شکست دینے کیلئے قوم پھر سے تیار ہو جائے ۔  لیکن یاد رکھیں اس بار خون تو اپنا ہی گرے گا چاہے وہ آپ کا خون ہے یا لاچار عوام کا
             ایک بات اور یاد رکھیں یہ قربانی کسی فرد واحد کو بچانے کیلئے نہیں بلکہ عوام کی حقیقی آزادی کیلئے ہو گی جس کا لاوا عوام کے دلوں میں پک رہا ہے ۔ اور ان کیلئے آپ کی محبت اور آپ کی انا کا انتخاب کرنے میں بہت معمولی فرق باقی رہ گیا ہے

                سب ادارے اپنی آئینی زمہ داریوں کو پورا کریں سیاستدان غلط کرتے ہیں غلط سنتے ہیں
خاکی وردی پہن کر شایان شان نہیں کہ اس پر کلنک لگائیں یاد ہے مشرف دور جب اپنے ملک میں سبزی لینے بکتر بند گاڑیوں میں جاتے تھے آرمی کا مخصوص ہیئر اسٹائل ختم کر دیا تھا اپنے ہی ملک میں باوردی سفر کرنا ممنوع قرار دے دیا تھا ۔
             ایسا نہیں ہے کہ دھمکی دے رہا ہوں میں سچا مسلمان اور سچا پاکستانی ہوں میرا تن من دھن اولاد پاکستان پر پاکستان آرمی پر قربان ۔ میں تو صرف ایسے حالات سے ڈرتا ہوں ۔ جب آدھے سے زیادہ بارڈر پر چالاک دشمن ہماری کمزوریوں کی تلاش میں بیٹھا ہے ۔ ہمیں اپنی اصلاح کر کے خاکی وردی کی عزت کو سربلند کرنا ہو گا
         آخر میں اتنا ہی کہنا چاہوں گا اللّٰہ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو ہر شخص ہر ادارہ اپنی آئینی اور اخلاقی حدود و اقدار میں رہتے ہوئے کام کرے تبھی پاکستان کا جھنڈا لہرا سکتا ہے
                پاکستان زندہ باد
                پاکستان پائندہ باد

2 comments:

  1. سنوارے ہیں
    تاریخ سے زندہ قوموں نے سیکھ کر آپنے مستقبل سنوارے سدھارے ہیں
    لیکن ہم بقلی انگریز کچھ زیادہ ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں
    اصلی انگریز آپنے ملک اور ریاست سے مخلص ہوتے تھے
    یہ نقلی انگریز غدار ہیں۔
    کبھی نہیں سیکھیں گے
    اگر سیکھ گئے ہوتے تو آدھا ملک نہ گنواتے

    ReplyDelete