Wednesday, 24 April 2019

خواب تو میرے بھی ہیں

          میں سعودی عرب میں مقیم ہوں میرے اردگرد بہت زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو تبدیلی کے خواہش مند تھے وہ کہتے تھے عمران خان اوورسیز کیلئے بات کرتا ہے ہم چاہتے ہیں اپنے ملک میں جا کر کام کریں ۔
          میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا تھا کوئی بھی برسرِ اقتدار آ جائے ہم نے محنت مشقت کر کے اپنا نظام چلانا ہے ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا عمران خان آئے اور ہمیں وظیفے ملنے شروع ہو جائیں جو لوگ سامان باندھ کر بیٹھے تھے نا صرف سامان کھول لیا ہے بلکہ زیادہ توجہ سے کام میں جھٹ گئے ہیں کیونکہ انہیں پتہ چل چکا ہے انہیں زندگی پردیس میں ہی گزارنی ہے۔
         کچھ دوست کہتے ہیں آپ غلام ہو انہیں یہی عرض کی جاتی تھی کہ بھائی نواز شریف کی کارکردگی کو مدنظر رکھ کر سپورٹ کرتے ہیں اور غلامی کی بات مت کرو کیونکہ ادنا سا سیاست کا طالب علم ہونے کے ناطے سمجھتا ہوں کہ آپ چاہے جسے ووٹ دو وہی لوگ وہی خاندان حکمران بنیں گے جو پاکستان بننے سے حکمران چلے آ رہے ہیں میں آپ یا ہمارے اردگرد سے کوئی حکمرانوں کی لسٹ میں نہیں آئے گا پھر غلام تو سب ہی ہیں صرف مسلم لیگ کو ووٹ دینے والا ہی کیوں غلام
          آج آپ دیکھ لیں جیسے بھی سہی برسرِ اقتدار پی ٹی آئی ہے لیکن حکمرانی انہی خاندانوں کے پاس ہے ۔
          بائیس سال محنت کرنے والے پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن کدھر ہیں ۔
          پھر ایک دوست نے کہا کہ عمران خان آیا تو غربت ختم کرے گا امیر اور غریب طبقے میں فرق کم ہو گا۔
          میرا جواب کچھ یوں تھا کہ ایک والد کے چند بیٹے ہوتے ہیں سب کی تعلیمی قابلیت ایک جیسی نہیں ہوتی سب معاشی طور پر ایک جیسے امیر یا غریب نہیں ہوتے ۔۔۔اگر ایک باپ اپنے چند بچوں کا نصیب ایک جیسا نہیں بنا سکتا تو کیسے ممکن ہے ایک وزیراعظم سارے ملک کو امیر بنا دے اور سب کا ڈیفنس میں ہی گھر ہو ۔
        یہ وہ نقطے ہیں جو حقیقت پسند اور خوابوں کی دنیا میں زندہ رہنے والوں کے درمیان خلیج بنائے ہوئے ہیں۔
       سچ تو یہ ہے عوام کے ووٹ کو طاقت سمجھتے ہوئے تسلیم کیا جائے برسر اقتدار جماعت کو اپنا آئینی وقت پورا کرنے کا موقع دیا جائے درمیان میں کوئی سازش نہ ہو جب سیاسی جماعتیں ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئیں گئیں تو ان کی کارکردگی خالص عوام کی اصلاح و بہبود کیلئے ہو گی۔
اسی طرح عوام کو بھی شعور ہو گا کہ ہم نے کس کو پانچ سال کیلئے منتخب کرنا ہے صرف برادری ازم یا پارٹی بازی کیلئے
یا پھر اس شخص کی قابلیت اور اچھائی کیلئے
تب ہی ممکن ہے کہ جماعتیں بھی شریف پڑھے لکھے صاف کردار کے لوگوں کو سامنے لائیں گئی ۔
        فیصلے سڑکوں پر نہیں پارلیمنٹ میں ہوں گے مثبت تنقید تو ہو گی جھوٹ کی ضرورت کم سے کم ہو گی کیونکہ باتوں کی نسبت عمل دیکھا جائے گا                      اسٹبلشمنٹ کو پاکستان کے عظیم مفاد میں ووٹ کو عزت دینا ہوگی ۔۔۔۔ جس دن اسٹبلشمنٹ نے ووٹ کو عزت دینے کا فیصلہ کر لیا پاکستان عزت و تکریم ترقی و خوشحالی کے زینے پر پہلا قدم جمانے میں کامیاب ہو جائے گا۔  
            اللّٰہ تعالیٰ میرے ملک کو عظیم سے عظیم تر بنا دے یا اللہ ہم سب کو صرف پاکستانی بنا
آمین یا رب العالمین۔

No comments:

Post a Comment