Tuesday, 30 April 2019

امیدیں

بسمہ اللہ الرحمن الرحیم
     دوستو آج تیس اپریل ہے رات بارہ بجے یکم مئی کو پٹرول کے ریٹس شاید دس روپے بڑھ جائیں گے
      مختلف قسم کی رائے سننے اور پڑھنے کو مل رہی ہے عام عوام جن میں عمران خان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے لوگ بھی شامل ہیں جھولی اٹھا کر عمران خان سے چھٹکارے بلکہ موت کی دعائیں کر رہے ہیں
      لیکن جن کا تبدیلی والا کیڑا ابھی ٹھیک سے مرا نہیں کہہ رہے ہیں پاکستان کی ترقی کیلئے پٹرول دو سو روپے کا لٹر ہو جائے ہم پھر بھی عمران خان کے ساتھ ہیں
    ایسے لوگوں سے عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ مہنگائی پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے نہیں ہو رہی بلکہ عمران خان کی نالائقیوں کی وجہ سے ہو رہی ہے
     سادہ سی مثال ہے آپ کو گردے کا آپریشن کرانا ہو اور آپ کسی درزی یا موچی کے پاس چلے جائیں صحت مند اور زندہ رہنا بھی مقصود ہو کیسے ممکن ہے
      میرا ماننا ہے عمران خان کرپٹ ہے اور اس کی تمام کرپشن سے اکھٹی کی گئی دولت اس کی بہنوں کے پاس موجود ہے کیونکہ جتنی دولت عمران خان کی بہنوں کے پاس ہے ان کا فیملی بیک گراؤنڈ ساتھ نہیں دیتا لیکن کچھ دوست ماننے کو تیار نہیں چلیں ان کی بات مان کر آگے بڑھتے ہیں
     میں کوئی لکھاری نہیں کسی جماعت کا عہدہ دار نہیں 1988 سے زمانہ طالبعلمی سے سیاست میں دلچسپی ہونے کی وجہ سے سمجھتا ہوں کہ جتنا بڑا کرپٹ ہو گا پارٹی کے مشکل وقت میں اتنی جلدی پارٹی کو خدا حافظ کہے گا کیونکہ وہ اسٹبلشمنٹ کا دباؤ برداشت نہیں کر سکتا
    آج عمران خان کی سلیکٹیڈ حکومت مشرف کی بی ٹیم ہونے کے علاوہ پی پی اور مسلم لیگ کے کرپٹ لوگوں کی محفوظ پناہ گاہ بنی ہوئی ہے ایسے میں میں اکثر مثال دیتا ہوں چونے پر کبھی پینٹ کرتے ہوئے کسی کو دیکھا ہے اگر نہیں دیکھا تو پی ٹی آئی کو دیکھ لیں
        اگر آپ موچی یا درزی سے آپریشن نہیں کرا سکتے
        اگر آپ چونے پر پینٹ کو پائیدار نہیں سمجھتے تو کیسے ممکن ہے ساری پارٹیوں کا اکھٹا کیا ہوا گند ملک کی تقدیر بدل دے گا
       صرف یہ مت سوچیے آپ نے عمران خان کو ووٹ دیا ہے لہذا اس کے غلط فعل کو بھی دفاع کرنا ہے اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے سوچیں
عمران خان وہ ہیرو نہیں جو آپ کے خوابوں کی تعبیر کر سکے وہ ہاتھی کے دانتوں جیسا ہے جو کھانے کے اور دکھانے کے اور ہیں

Wednesday, 24 April 2019

خواب تو میرے بھی ہیں

          میں سعودی عرب میں مقیم ہوں میرے اردگرد بہت زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو تبدیلی کے خواہش مند تھے وہ کہتے تھے عمران خان اوورسیز کیلئے بات کرتا ہے ہم چاہتے ہیں اپنے ملک میں جا کر کام کریں ۔
          میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا تھا کوئی بھی برسرِ اقتدار آ جائے ہم نے محنت مشقت کر کے اپنا نظام چلانا ہے ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا عمران خان آئے اور ہمیں وظیفے ملنے شروع ہو جائیں جو لوگ سامان باندھ کر بیٹھے تھے نا صرف سامان کھول لیا ہے بلکہ زیادہ توجہ سے کام میں جھٹ گئے ہیں کیونکہ انہیں پتہ چل چکا ہے انہیں زندگی پردیس میں ہی گزارنی ہے۔
         کچھ دوست کہتے ہیں آپ غلام ہو انہیں یہی عرض کی جاتی تھی کہ بھائی نواز شریف کی کارکردگی کو مدنظر رکھ کر سپورٹ کرتے ہیں اور غلامی کی بات مت کرو کیونکہ ادنا سا سیاست کا طالب علم ہونے کے ناطے سمجھتا ہوں کہ آپ چاہے جسے ووٹ دو وہی لوگ وہی خاندان حکمران بنیں گے جو پاکستان بننے سے حکمران چلے آ رہے ہیں میں آپ یا ہمارے اردگرد سے کوئی حکمرانوں کی لسٹ میں نہیں آئے گا پھر غلام تو سب ہی ہیں صرف مسلم لیگ کو ووٹ دینے والا ہی کیوں غلام
          آج آپ دیکھ لیں جیسے بھی سہی برسرِ اقتدار پی ٹی آئی ہے لیکن حکمرانی انہی خاندانوں کے پاس ہے ۔
          بائیس سال محنت کرنے والے پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن کدھر ہیں ۔
          پھر ایک دوست نے کہا کہ عمران خان آیا تو غربت ختم کرے گا امیر اور غریب طبقے میں فرق کم ہو گا۔
          میرا جواب کچھ یوں تھا کہ ایک والد کے چند بیٹے ہوتے ہیں سب کی تعلیمی قابلیت ایک جیسی نہیں ہوتی سب معاشی طور پر ایک جیسے امیر یا غریب نہیں ہوتے ۔۔۔اگر ایک باپ اپنے چند بچوں کا نصیب ایک جیسا نہیں بنا سکتا تو کیسے ممکن ہے ایک وزیراعظم سارے ملک کو امیر بنا دے اور سب کا ڈیفنس میں ہی گھر ہو ۔
        یہ وہ نقطے ہیں جو حقیقت پسند اور خوابوں کی دنیا میں زندہ رہنے والوں کے درمیان خلیج بنائے ہوئے ہیں۔
       سچ تو یہ ہے عوام کے ووٹ کو طاقت سمجھتے ہوئے تسلیم کیا جائے برسر اقتدار جماعت کو اپنا آئینی وقت پورا کرنے کا موقع دیا جائے درمیان میں کوئی سازش نہ ہو جب سیاسی جماعتیں ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئیں گئیں تو ان کی کارکردگی خالص عوام کی اصلاح و بہبود کیلئے ہو گی۔
اسی طرح عوام کو بھی شعور ہو گا کہ ہم نے کس کو پانچ سال کیلئے منتخب کرنا ہے صرف برادری ازم یا پارٹی بازی کیلئے
یا پھر اس شخص کی قابلیت اور اچھائی کیلئے
تب ہی ممکن ہے کہ جماعتیں بھی شریف پڑھے لکھے صاف کردار کے لوگوں کو سامنے لائیں گئی ۔
        فیصلے سڑکوں پر نہیں پارلیمنٹ میں ہوں گے مثبت تنقید تو ہو گی جھوٹ کی ضرورت کم سے کم ہو گی کیونکہ باتوں کی نسبت عمل دیکھا جائے گا                      اسٹبلشمنٹ کو پاکستان کے عظیم مفاد میں ووٹ کو عزت دینا ہوگی ۔۔۔۔ جس دن اسٹبلشمنٹ نے ووٹ کو عزت دینے کا فیصلہ کر لیا پاکستان عزت و تکریم ترقی و خوشحالی کے زینے پر پہلا قدم جمانے میں کامیاب ہو جائے گا۔  
            اللّٰہ تعالیٰ میرے ملک کو عظیم سے عظیم تر بنا دے یا اللہ ہم سب کو صرف پاکستانی بنا
آمین یا رب العالمین۔

Wednesday, 10 April 2019

تجربہ گاہ

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
دوستو پرانے زمانے کی بات ہے کسی ریاست کا بادشاہ ہلاک  ہو گیا اب وزیر اور سپاہ سالار سوچ میں پڑ گئے کسے متفقہ بادشاہ  بنائیں تاکہ خانہ جنگی سے بچا جا سکے آخرکار فیصلہ ہوا جو شخص طلوع آفتاب کے نزدیک سب سے پہلے قلعہ کے سامنے سے گزرے گا بادشاہ بنائیں گے
سو فیصلہ پر عمل کرتے ہوئے ایسے شخص کو بادشاہ بنا دیا گیا جو قلعہ کے سامنے سب سے پہلے گزرتا ہوا پایا گیا
 اب بادشاہ سلامت سے پوچھا کوئی حکم بادشاہ کرو کڑائی مطلب حلوہ
جب بھی وزیر پوچھتے بادشاہ سلامت کوئی حکم بادشاہ کہتا کرو کڑائی پڑوسی ریاست کو پتہ چلا انہوں نے حملہ کر دیا
کرو کڑائی فوجیں ملک میں گھس گئیں ہیں کرو کڑائی
بادشاہ کے وزیر سپاہ سالار خوش کے بادشاہ کے پاس کچھ خاص ہے جو وہ بے فکر ہے
دراصل بادشاہ تو غریب بھوکا تھا جو حلوے پے حلوہ منگوا رہا تھا آخر کار دشمن کی فوجیں قلعہ کے نزدیک پہنچ گئیں
بادشاہ کو بتایا گیا تب بادشاہ نے کہا میری کلہاڑی اور کپڑا دو میری تو بکریاں بھوکی مر رہیں ہوں گئیں تم جانو تمھاری ریاست جانے
ہمارے پیارے ملک پاکستان کے ساتھ بھی کچھ مختلف نہیں ہو رہا تجربہ ہو رہا ہے
میں سپاہ سالار اور اس کو مشورے دینے والوں سے عرض کرتا ہوں کہیں اخر میں آپ کا بنایا ہوا بادشاہ یہ نہ کہہ دے مجھے معاف کریں آپ جانیں آپکا ملک جانے 
ہم تو صرف پاکستان کی سلامتی اور ترقی کیلئے دعا کر سکتے ہیں آخری فیصلہ تو اپکآ ہے
پلیز آخری حلوے کا انتظار مت کریں
شکریہ