Tuesday, 16 July 2019

برساتی مینڈک

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
        معزز قارئین مون سون کی بارشیں برسنا شروع ہو گئی ہیں تو پاکستان کے شہروں کی کچھ وڈیو دیکھیں تو سوچا کچھ لکھنا چاہیے ۔
        کیونکہ موجودہ حکمران کچھ عرصہ پہلے ان مسائل پر خوب تنقید کرتے تھے دلچسپ بات آج بھی وہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ۔
       جب بھی کسی ملک میں زیادہ بارشیں آتیں ہیں تو پہلے جھٹکے میں تمام نظام متاثر ہوتا ہے اس کے بعد جو حرکت کچھ عرصہ پہلے سے شروع ہو چکی ہوتی ہے اس میں تیزی آتی ہے نتیجہ حالات کنٹرول میں آ جاتے ہیں ۔ شہباز شریف مون سون سے چند ماہ پہلے سے تیاری شروع کر دیتا تھا ۔ جس دن بارش ہوئی ٹیم کے ساتھ مل کر حالات کنٹرول میں کر لیتا تھا اس مرتبہ کوئی تیاری نہیں تھی لہذا ہر گلی کوچے میں سیلاب آیا ہوا ہے۔ بزدار اور گل فلم شوٹنگ کر رہے ہیں اور الزام لگا رہے ہیں کہ سابق حکومت نے کوئی پلاننگ نہیں کی اس لیے ایسا ہو رہا ہے
       سابق حکومت کو ختم ہوئے 13 ماہ ہو چکے ہیں آپ بتائیں آپ نے کیا کیا مجھے ان لوگوں کے پراپیگنڈے کا دکھ نہیں وہ تو فریق ہیں مجھے دکھ ہوتا ہے جب عوام باتوں میں آ کر بے جا تنقید اور گالم گلوچ کرتی ہے ۔ کہتے ہیں نکاسی کا مناسب انتظام نہیں کیا ۔ ان کیلئے عرض ہے کہ بڑے بڑے ممالک پرانے شہروں کی نکاسی کا نیا نظام لاتے ہوئے کنگال ہو جاتے ہیں  ہمارے اتنے وسائل کہاں ۔  فرض کریں اگر شروع بھی کر دیا جائے تو ہر شہر کا نظام بدل نہیں سکتے ایک شہر سے شروع کرنا ہو گا تو سب کہنے لگیں گے کہ پورے پاکستان کی ویلفیئر کا پیسہ ایک شہر کے نالے بنانے کیلئے لگا دیا ۔ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کسی منصوبے کی تعریف ہم کر دیں ۔ مثال کے طور پر بڑے شہروں میں دودھ گوشت چھوٹے شہروں اور دیہاتوں سے آتا ہے
ایسے میں شہباز شریف نے لاہور شہر میں انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے ذبع خانے بنانے شروع کیے ہونا تو چاہئے تھا اس منصوبے کو پذیرائی ملتی سب تعاون کرتے حوصلہ افزائی کرتے اپنے شہروں میں ایسے سنٹر بنانے کیلئے کہتے ۔الٹا لاہور شہر کو کھوتا خور شہر قرار دے دیا حالانکہ اس طرح کا مکروہ کام سب شہروں میں ہوتا ہے دیہاتوں میں اگر کوئی جانور مر جائے یا مرنے کے قریب ہو فوراً ذبح کر کے قصاب کے حوالے کر دیا جاتا ہے بد قسمتی سے ساری قوم ہی ایسی ہے۔ میٹرو ایک شہر میں بنی تو تنقید ہوئی الحمدلله تین شہروں میں بن گئی اس شہر کا طالبعلم ملازم ضرورت مند مناسب پیسوں میں سفر کرتا ہے لیکن اسٹیشن پر کھڑے ہو کر پوچھیں آدھے تنقید کریں گے لیپ ٹاپ لینے والے تنقید کریں گے ۔ بہر حال چھوڑیں یہ باتیں گیارہ ماہ ہو گئے حکومت کو پچھلی حکومت چور تھی کرپٹ تھی اب ایسا نہیں ہے ۔ اب کسی ایک شہر سے شروع کر دیں راولپنڈی سے لاہور سے پشاور میں تو کھدائی ہوئی ہے میٹرو کی تھوڑی سی اور کر لیں ساتھ میں نکاسی آب کیلئے پائپ لائن منصوبے کی تکمیل بھی کر لیں ۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا صرف باتیں اور باتیں ہونگی
دھرنے کے دنوں میں شاہ محمود قریشی نے ملتان میں جلسہ کیا اور کہا پاکستان بنے 67 سال ہو گئے آج بھی ملتان میں صاف پانی کیلئے کوئی انتظام نہیں ہے ہم آئے تو صاف پانی کے منصوبے لگیں گے تب بے اختیار ہنسی نکل گئی کہ نسل در نسل اقتدار میں رہنے والے دربار کے نام پر چندہ لے کر غریبوں کے پیٹ پر لات مارنے والے کہہ رہے ہیں پہلے حکمرانوں نے کچھ نہیں کیا ۔
          چلیں جعلی پیر جعلی وزیراعظم ان ٹرین وزیر اعلیٰ کراے پر مشیروں کی ٹیم  آئی ایم ایف ورلڈ بینک کے ایجنٹ برساتی مینڈک مسلط کر کے  اسٹبلشمنٹ نے جو ظلم کرنا تھا کر دیا  اب آپ اپنی طاقت آزما لیں ۔
           اللّٰہ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
                     پاکستان زندہ باد
                                          پاکستان پائندہ باد

Sunday, 7 July 2019

لیڈر مریم نواز

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
        محترم  قارئین کرام کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے ۔ آج ابھی میں نے مریم نواز صاحبہ کو منڈی بہاوالدین کیلئے نکلتے ہوئے دیکھا کچھ دن پہلے ایک کانفرنس کی اور کل تو کمال کر دیا ۔ تو میری توجہ ماضی پر پڑی ۔ میاں نواز شریف سیاسی نہیں تھے میاں محمد شریف مرحوم نے بھٹو کا ساتھ نہیں دیا جس کی پاداش میں ان کی فیکٹری کو قومی تحویل میں لے لیا گیا
تب ان کے دوستوں نے مشورہ دیا ۔ آپ پر اللہ کی رحمت ہے کاروبار کرنا ہے تو سیاسی طور پر مضبوط ہونا ضروری ہے ۔
            تب ضیاء الحق آتا ہے جو گیارہ سال کیلئے مارشل لاء کی صورت میں برسر اقتدار رہتا ہے ۔ بھٹو کے خلاف ہے لہذا میاں محمد نواز شریف ضیاء الحق ٹیم کا حصہ بن جاتے ہیں صوبائی وزیر خزانہ اور وزیر اعلیٰ رہتے ہیں ۔ مالی طور پر مضبوط ہونے کی وجہ سے ضیاء الحق کے بعد پیپلز پارٹی مخالف اتحاد آئی جے آئی کے سربراہ بنتے ہیں اور جلد ہی مسلم لیگ کے نام سے اپنی پارٹی بناتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے مقابل سب سے قد آور شخصیت اور جماعت کے طور پر ابھرتے ہیں اور عروج کا یہ عالم ہے 2018 کے الیکشن میں بکسے چوری ہونے اور 16 لاکھ ووٹ ریجکٹ ہونے نااہل ہونے جیل میں بیٹی اور داماد سمیت قید ہونے
امیدواروں کو نااہل پارٹی وابستگی تبدیل کرنے جیسے ہتھکنڈوں کے باوجود ایک کروڑ تیس لاکھ سے زائد ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں  ۔  مسلم لیگ کیا ہے جی مسلم لیگ نواز شریف ہے۔ اب مریم نواز کا ذکر ہو جائے ۔ 1999 میں بہت کم لوگ ہوں گے جو جانتے ہوں نواز شریف کے کتنے بچے ہیں تب نواز شریف کی گرفتاری پر چوری کھانے والے مجنوں گجراتی برادران شیدہ ٹلی چوہدری نثار باقی کافی لوگ وقتی گوشہ نشین ہو گئے
        تب بیگم کلثوم نواز مریم نواز نواز شریف کیلئے گھر سے باہر نکلیں چاہے عدالت ہو یا جیل کا سفر طے کیا۔ میڈیا اور عوام میں نکلیں ۔۔ مجھے یاد ہے ایک بہادر بیٹی کا کہنا ہم تو پاکستان آرمی سے بے پناہ محبت کرتے ہیں الفا براوو چارلی ڈرامے کا ذکر بھی کیا کہ ہم وہ بہت شوق سے دیکھتے ہیں ۔ محب وطن ہونے کے باوجود ہمیں کس ناکردہ جرم کی سزا دی جا رہی ہے جبکہ پاکستان نے پہلے سے بہت زیادہ ترقی کر ہے
         آج ایک مرتبہ پھر مریم نواز صاحبہ والد کیلئے باہر نکل چکیں ہیں لیکن بالکل مختلف روپ میں ایک مریم نواز وہ تھی جو 1999 میں باہر نکلی تھی لیکن عام دیسی ماحول میں پلی بڑھی معصوم سی لڑکی
لیکن آج جب 2018 میں وہ بات کرتی ہے پاکستان میں کوئی ایک بھی اس کے مد مقابل قد کاٹھ والا عوامی نمائندہ نظر نہیں آتا ۔ آج وہ لیڈر بن چکی ہے پھول جیسی خوبصورت صنفِ نازک کہلانے والی
ایک بلند وبالا پہاڑ کی طرح بے شمار حوصلے اور ہمت والی جس کے منہ سے نکلے چند الفاظ کی جہاں کروڑوں لوگوں کو خوشی ہوتی ہے وہیں لاکھوں لوگ حسد سے مر جاتے ہیں ۔ جی مریم نواز لیڈر بن چکی ہے۔ اگر پاکستان میں باقی دنیا کی طرح الیکشن ہوتے اور عوام کے ووٹ کے ذریعے وزیر اعظم منتخب ہوتے یقین سے کہہ سکتا ہوں آج بھی مریم نواز ایک گھریلو خاتون ہوتیں ۔ بہت کم لوگ ان کے بارے میں جانتے ۔ انہیں تو حالات نے سیاست دان بنا دیا ۔ ہاں آج وہ سیاست دان ہیں ہاں آج وہ ایک تقریر کریں کہیں مہینوں کیلئے اثر چھوٹ جاتا ہے
      انہیں سیاست وراثت میں ضرور ملی ہو گی لیکن  ہر دن والد کی طرح سیاست میں قد آور ہوتیں جا رہیں ہیں ۔ تو اس کا ذمہ دار کون ہے ۔ یورپ کے جمہوری نظام کی باتیں کرنے والے بتانا پسند کریں گے کہ یورپ میں دیگر اداروں کی حکومتی معاملات میں مداخلت کتنی ہوتی ہے ۔ ہمارے ملک میں ہر کسی کے پاس سوال ہیں جواب کوئی نہیں
       کوشش کریں ارد گرد کے ماحول پر نگاہ ڈالیں اور جواب ڈھونڈیں تبھی ممکن ہے ہم ترقی کر سکیں
                                                         فی امان اللہ
                         محب وطن پاکستانی
پاکستان زندہ باد

Saturday, 6 July 2019

انگلستان اور انگلش دماغ

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
                         السلام علیکم دوستو
         ہندوستان میں انگریز تجارت کرنے کیلئے آیا اور پھر قبضہ کر کے بیٹھ گیا ۔ مختلف خونی تحریکیں چلی تب کہیں جا کر آزادی ملی ۔ لیکن انگریز جاتے جاتے کچھ تحفے دے گئے۔ سب سے پہلے برطانیہ کا کسی ملک پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں حکومت کرنے کا طریقہ کار ملاحظہ فرمائیں۔
        کسی کمزور دماغ اور کمزور دفاعی نظام رکھنے والے کٹھ پُتلی مقامی راجہ کو تخت پر بٹھایا جاتا تھا۔ فوج کے تمام بڑے عہدے انگریزوں نے سنبھال رکھے ہوتے تھے مقامی لوگوں کو فوج میں بھرتی کیا جاتا
        ان سے تمام خدمات لی جاتیں۔ اعلیٰ افسران تمام قواعد و ضوابط طے کرتے جسے مقامی قیادت کے ذریعے عمل میں لایا جاتا۔
        14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آتا ہے کہنے کو انگریز چلا جاتا ہے لیکن ہمیں ورثے میں اپنا ماحول دے کر جاتا ہے ۔  پہلے بھی آفیسر انگلش میں بات کرتے تھے آج بھی انگلش میں بات کرتے ہیں پہلے بھی مقامی آبادیوں سے قربانی کیلئے سپاہی بھرتی تیار کئے جاتے تھے آج بھی ایسا ہی ہے ۔ پہلے بھی انگریز آفیسر طاقتور تھے آج بھی انگلش آفیسر طاقتور ہیں۔ پہلے بھی کٹھ پتلی راجہ کو حکومت سونپی جاتی تھی ۔ آج بھی کٹھ پتلی حکمران ترجیح ہے۔ پہلے بھی اگر کوئی راجہ مضبوط ہونے کی کوشش کرتا ۔ کسی دوسرے کمزور راجہ کو مدد کر کے اور سازشیں کرکے مضبوط ہو رہے راجہ کو رستے سے ہٹا دیا جاتا آج بھی مضبوط سربراہ کے خلاف سازشیں کر کے کٹھ پتلی سربراہ لائے جاتے ہیں ۔ تب بھی سرمایہ کاری آرمی کرتی تھی آج بھی آرمی بہت سارے ادارے چلا رہی ہے
تب بھی کوئی انگریز آفیسر رٹائرڈ ہو کر لندن چلا جاتا آج بھی انگلش آفیسر لندن امریکہ یا پیرس شفٹ ہو جاتے ہیں۔ کچھ نہیں بدلا صرف نام ملا
اسلامی جمہوری پاکستان
لیکن اسلامی ملا نا جمہوری ملا نا پاکستان ملا
بس لارڈ ماؤنٹ بیٹن انگلش نام کے بجائے اسلامی نام  ایوب ضیاء مشرف باجوہ ملے
لیکن عادتیں لارڈ ماؤنٹ بیٹن والی ملیں آج بھی ستر سال سے وہی سازشیں آج بھی
کچھ فرق نہیں پڑا
           فرق پڑنا چاہیے کیونکہ آپ انگلش ضرور بولتے ہیں لیکن ہمارا خون ایک ہے ہم نے قیامت کے دن ایک اللّٰہ کو جوابدہ ہونا ہے ۔ تب آپ جرنل نہیں ہوں گے آرمی چیف نہیں ہوں گے۔ انگلش اور اردو کا فرق نہیں ہو گا صرف عربی ہو گی ۔ سیاستدانوں کو ان کے گناہوں کی سزا ملے گی ۔ لیکن آپ کو بھی اپنے کئے کی سزا ملے گی۔ آپ کی وجہ سے ہوتی ملکی تباہی کا ذمہ دار روز محشر کوئی دوسرا نہیں ہو گا
            آج تو ارشد ملک جس نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا کہہ رہا ہے دل ملامت کرتا ہے نواز شریف کے خلاف کچھ نہیں تھا لیکن پریشر تھا سزا ضرور سنانی ہے لیکن اب روتا ہوں اللّٰہ کے سامنے کیسے پیش ہوں گا ۔ اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے تو سب کو پیش ہونا ہے۔
             ان سب باتوں کے علاوہ آپ کی توجہ سب سے ضروری نکتہ پر مبذول کرا دوں ۔ انگریز سے جان چھڑانے کیلئے قربانیاں دیں تھیں کہیں ایسا نہ ہو انگریزوں کے دماغ (  جو تحفے میں ملے تھے ) کو  شکست دینے کیلئے قوم پھر سے تیار ہو جائے ۔  لیکن یاد رکھیں اس بار خون تو اپنا ہی گرے گا چاہے وہ آپ کا خون ہے یا لاچار عوام کا
             ایک بات اور یاد رکھیں یہ قربانی کسی فرد واحد کو بچانے کیلئے نہیں بلکہ عوام کی حقیقی آزادی کیلئے ہو گی جس کا لاوا عوام کے دلوں میں پک رہا ہے ۔ اور ان کیلئے آپ کی محبت اور آپ کی انا کا انتخاب کرنے میں بہت معمولی فرق باقی رہ گیا ہے

                سب ادارے اپنی آئینی زمہ داریوں کو پورا کریں سیاستدان غلط کرتے ہیں غلط سنتے ہیں
خاکی وردی پہن کر شایان شان نہیں کہ اس پر کلنک لگائیں یاد ہے مشرف دور جب اپنے ملک میں سبزی لینے بکتر بند گاڑیوں میں جاتے تھے آرمی کا مخصوص ہیئر اسٹائل ختم کر دیا تھا اپنے ہی ملک میں باوردی سفر کرنا ممنوع قرار دے دیا تھا ۔
             ایسا نہیں ہے کہ دھمکی دے رہا ہوں میں سچا مسلمان اور سچا پاکستانی ہوں میرا تن من دھن اولاد پاکستان پر پاکستان آرمی پر قربان ۔ میں تو صرف ایسے حالات سے ڈرتا ہوں ۔ جب آدھے سے زیادہ بارڈر پر چالاک دشمن ہماری کمزوریوں کی تلاش میں بیٹھا ہے ۔ ہمیں اپنی اصلاح کر کے خاکی وردی کی عزت کو سربلند کرنا ہو گا
         آخر میں اتنا ہی کہنا چاہوں گا اللّٰہ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو ہر شخص ہر ادارہ اپنی آئینی اور اخلاقی حدود و اقدار میں رہتے ہوئے کام کرے تبھی پاکستان کا جھنڈا لہرا سکتا ہے
                پاکستان زندہ باد
                پاکستان پائندہ باد