بسمہ اللہ الرحمن الرحیم
دوستو آج تیس اپریل ہے رات بارہ بجے یکم مئی کو پٹرول کے ریٹس شاید دس روپے بڑھ جائیں گے
مختلف قسم کی رائے سننے اور پڑھنے کو مل رہی ہے عام عوام جن میں عمران خان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے لوگ بھی شامل ہیں جھولی اٹھا کر عمران خان سے چھٹکارے بلکہ موت کی دعائیں کر رہے ہیں
لیکن جن کا تبدیلی والا کیڑا ابھی ٹھیک سے مرا نہیں کہہ رہے ہیں پاکستان کی ترقی کیلئے پٹرول دو سو روپے کا لٹر ہو جائے ہم پھر بھی عمران خان کے ساتھ ہیں
ایسے لوگوں سے عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ مہنگائی پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے نہیں ہو رہی بلکہ عمران خان کی نالائقیوں کی وجہ سے ہو رہی ہے
سادہ سی مثال ہے آپ کو گردے کا آپریشن کرانا ہو اور آپ کسی درزی یا موچی کے پاس چلے جائیں صحت مند اور زندہ رہنا بھی مقصود ہو کیسے ممکن ہے
میرا ماننا ہے عمران خان کرپٹ ہے اور اس کی تمام کرپشن سے اکھٹی کی گئی دولت اس کی بہنوں کے پاس موجود ہے کیونکہ جتنی دولت عمران خان کی بہنوں کے پاس ہے ان کا فیملی بیک گراؤنڈ ساتھ نہیں دیتا لیکن کچھ دوست ماننے کو تیار نہیں چلیں ان کی بات مان کر آگے بڑھتے ہیں
میں کوئی لکھاری نہیں کسی جماعت کا عہدہ دار نہیں 1988 سے زمانہ طالبعلمی سے سیاست میں دلچسپی ہونے کی وجہ سے سمجھتا ہوں کہ جتنا بڑا کرپٹ ہو گا پارٹی کے مشکل وقت میں اتنی جلدی پارٹی کو خدا حافظ کہے گا کیونکہ وہ اسٹبلشمنٹ کا دباؤ برداشت نہیں کر سکتا
آج عمران خان کی سلیکٹیڈ حکومت مشرف کی بی ٹیم ہونے کے علاوہ پی پی اور مسلم لیگ کے کرپٹ لوگوں کی محفوظ پناہ گاہ بنی ہوئی ہے ایسے میں میں اکثر مثال دیتا ہوں چونے پر کبھی پینٹ کرتے ہوئے کسی کو دیکھا ہے اگر نہیں دیکھا تو پی ٹی آئی کو دیکھ لیں
اگر آپ موچی یا درزی سے آپریشن نہیں کرا سکتے
اگر آپ چونے پر پینٹ کو پائیدار نہیں سمجھتے تو کیسے ممکن ہے ساری پارٹیوں کا اکھٹا کیا ہوا گند ملک کی تقدیر بدل دے گا
صرف یہ مت سوچیے آپ نے عمران خان کو ووٹ دیا ہے لہذا اس کے غلط فعل کو بھی دفاع کرنا ہے اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے سوچیں
عمران خان وہ ہیرو نہیں جو آپ کے خوابوں کی تعبیر کر سکے وہ ہاتھی کے دانتوں جیسا ہے جو کھانے کے اور دکھانے کے اور ہیں
Tuesday, 30 April 2019
امیدیں
Wednesday, 24 April 2019
خواب تو میرے بھی ہیں
میں سعودی عرب میں مقیم ہوں میرے اردگرد بہت زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو تبدیلی کے خواہش مند تھے وہ کہتے تھے عمران خان اوورسیز کیلئے بات کرتا ہے ہم چاہتے ہیں اپنے ملک میں جا کر کام کریں ۔
میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا تھا کوئی بھی برسرِ اقتدار آ جائے ہم نے محنت مشقت کر کے اپنا نظام چلانا ہے ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا عمران خان آئے اور ہمیں وظیفے ملنے شروع ہو جائیں جو لوگ سامان باندھ کر بیٹھے تھے نا صرف سامان کھول لیا ہے بلکہ زیادہ توجہ سے کام میں جھٹ گئے ہیں کیونکہ انہیں پتہ چل چکا ہے انہیں زندگی پردیس میں ہی گزارنی ہے۔
کچھ دوست کہتے ہیں آپ غلام ہو انہیں یہی عرض کی جاتی تھی کہ بھائی نواز شریف کی کارکردگی کو مدنظر رکھ کر سپورٹ کرتے ہیں اور غلامی کی بات مت کرو کیونکہ ادنا سا سیاست کا طالب علم ہونے کے ناطے سمجھتا ہوں کہ آپ چاہے جسے ووٹ دو وہی لوگ وہی خاندان حکمران بنیں گے جو پاکستان بننے سے حکمران چلے آ رہے ہیں میں آپ یا ہمارے اردگرد سے کوئی حکمرانوں کی لسٹ میں نہیں آئے گا پھر غلام تو سب ہی ہیں صرف مسلم لیگ کو ووٹ دینے والا ہی کیوں غلام
آج آپ دیکھ لیں جیسے بھی سہی برسرِ اقتدار پی ٹی آئی ہے لیکن حکمرانی انہی خاندانوں کے پاس ہے ۔
بائیس سال محنت کرنے والے پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن کدھر ہیں ۔
پھر ایک دوست نے کہا کہ عمران خان آیا تو غربت ختم کرے گا امیر اور غریب طبقے میں فرق کم ہو گا۔
میرا جواب کچھ یوں تھا کہ ایک والد کے چند بیٹے ہوتے ہیں سب کی تعلیمی قابلیت ایک جیسی نہیں ہوتی سب معاشی طور پر ایک جیسے امیر یا غریب نہیں ہوتے ۔۔۔اگر ایک باپ اپنے چند بچوں کا نصیب ایک جیسا نہیں بنا سکتا تو کیسے ممکن ہے ایک وزیراعظم سارے ملک کو امیر بنا دے اور سب کا ڈیفنس میں ہی گھر ہو ۔
یہ وہ نقطے ہیں جو حقیقت پسند اور خوابوں کی دنیا میں زندہ رہنے والوں کے درمیان خلیج بنائے ہوئے ہیں۔
سچ تو یہ ہے عوام کے ووٹ کو طاقت سمجھتے ہوئے تسلیم کیا جائے برسر اقتدار جماعت کو اپنا آئینی وقت پورا کرنے کا موقع دیا جائے درمیان میں کوئی سازش نہ ہو جب سیاسی جماعتیں ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئیں گئیں تو ان کی کارکردگی خالص عوام کی اصلاح و بہبود کیلئے ہو گی۔
اسی طرح عوام کو بھی شعور ہو گا کہ ہم نے کس کو پانچ سال کیلئے منتخب کرنا ہے صرف برادری ازم یا پارٹی بازی کیلئے
یا پھر اس شخص کی قابلیت اور اچھائی کیلئے
تب ہی ممکن ہے کہ جماعتیں بھی شریف پڑھے لکھے صاف کردار کے لوگوں کو سامنے لائیں گئی ۔
فیصلے سڑکوں پر نہیں پارلیمنٹ میں ہوں گے مثبت تنقید تو ہو گی جھوٹ کی ضرورت کم سے کم ہو گی کیونکہ باتوں کی نسبت عمل دیکھا جائے گا اسٹبلشمنٹ کو پاکستان کے عظیم مفاد میں ووٹ کو عزت دینا ہوگی ۔۔۔۔ جس دن اسٹبلشمنٹ نے ووٹ کو عزت دینے کا فیصلہ کر لیا پاکستان عزت و تکریم ترقی و خوشحالی کے زینے پر پہلا قدم جمانے میں کامیاب ہو جائے گا۔
اللّٰہ تعالیٰ میرے ملک کو عظیم سے عظیم تر بنا دے یا اللہ ہم سب کو صرف پاکستانی بنا
آمین یا رب العالمین۔